صحیح بخاری
کتاب لیلۃ القدر
باب : شب قدر کی فضیلت
اور ( سورۃ قدر میں ) الله تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے (قرآن مجید) کو شب قدر میں اتارا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں فرشتے، روح القدس ( جبریل علیہ السلام ) کے ساتھ اپنے رب کے حکم سے ہر بات کا انتظام کرنے کو اترتے ہیں۔ اور صبح تک یہ سلامتی کی رات قائم رہتی ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن میں جس موقعہ کے لیے " ماادرٰک " آیا ہے تو اسے الله تعالیٰ نے رسول صلى الله عليه وسلم کو بتا دیا ہے اور جس کے لیے " ما یدریک " فرمایا اسے نہیں بتایا ہے۔
حدیث نمبر : 2014
ہم سے علی بن عبدألله مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس روایت کو یاد کیاتھا او ریہ روایت انہوں نے زہری سے ( سن کر ) یاد کی تھی۔ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب ( حصول اجر و ثواب کی نیت ) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ او رجو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، سفیان کے ساتھ سلیمان بن کثیر نے بھی اس حدیث کو زہری سے روایت کیا۔
باب : شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا
حدیث نمبر : 2015
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبردی، انہیں نافع نے، او رانہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں ( رمضان کی ) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری ( طاق ) راتوں میں تلاش کرے۔
تشریح : اس حدیث کے تحت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ و فی ہذا الحدیث دلالۃ علی عظم قدر الرویاءوجواز الاستناد الیہا فی الاستدلال علی الامور الوجودیۃ بشرط ان لا یخالف القواعد الشرعیۃ ( فتح ) یعنی اس حدیث سے خوابوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان میں امور وجودیہ کے لیے استناد کے جواز کی دلیل ہے بشرطیکہ وہ شرعی قواعد کے خلاف نہ ہو، فی الواقع مطابق حدیث دیگر مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ الا ان اولیاءللہ الخ میں بشریٰ سے مراد نیک خواب بھی ہیں، جو وہ خود دیکھے یا اس کے لیے دوسرے لوگ دیکھیں۔
حدیث نمبر : 2016
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا، وہ میرے دوست تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے۔ پھر بیس تاریخ کی صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دلی گئی یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) میں خود بھول گیا۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے ( خواب میں ) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادلوں کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کرر ہے تھے۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا۔
باب : شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔ اس باب میں عبادہ بن صامت سے روایت ہے۔
تشریح : لیلۃ القدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان شریف میں واقع ہونا یہ چیزیں نصوص قرآنی سے ثابت ہیں، جیسا کہ سورۃ قدر میں مذکور ہے۔ اور اس بارے میں احادیث صحیحہ بھی بکثرت وارد ہیں۔ پھر بھی آج کل کے بعض منکرین حدیث نے لیلۃ القدر کا انکار کیا ہے جن کا قول ہرگز توجہ کے قابل نہیں ہے۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں واختلف فی المراد الذی اضیفت الیہ اللیلۃ فقیل المراد بہ التعظیم کقولہ تعالیٰ و ما قدروا اللہ حق قدرہ و المعنی انہا ذات قدر لنزول القرآن فیہا یعنی یہاں قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے یعنی ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا۔ آیت شریفہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے۔ یہاں بھی اس رات کے لیے تعظیم مراد ہے۔ اس لیے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ قال العلماء سمیت لیلۃ القدر لما تکتب فیہا الملئکۃ من الاقدار لقولہ تعالیٰ فیہا یفرق کل امر حکیم ( فتح ) یعنی علماء کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لیے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی کل تقدیریں لکھتے ہیں۔ جیسا کہ آیت قرآنی میں مذکور کہ اس میں ہر محکم امر لکھا جاتا ہے۔
اس رات کے بارے میں علماءکے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جنہیں46 اقوال کی تعداد تک پہنچا دیا ہے۔ آخر میں آپ نے اپنا فاضلانہ فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے۔ وارجحہا کلہا انہا فی و ترمن العشر الاخیر و انہا تنتقل کما یفہم من احادیث ہذا الباب یعنی ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے سمجھا جاتا ہے۔ شافعیہ نے اکیسویں رات کو ترجیح دی ہے اور جمہو رنے ستائیسویں رات کو مگر صحیح تر یہی ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے اور یہ ایک پوشیدہ رات ہے۔ قال العلماءالحکمۃ فی اخفاءالقدر لیحصل الاجتہاد فی التماسہا بخلاف ما لوعینت لہا لیلۃ لاقتصر علیہا کما تقدم نحوہ فی ساعۃ الجمعۃ یعنی علماءنے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے تاکہ اس کی تلاش کے لیے کوشش کی جائے۔ اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اس رات پر اقتصار کر لیا جاتا۔ جیسا کہ جمعہ کی گھڑی کی تفصیل میں پیچھے مفصل بیان کیا جا چکا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اس سے ان لوگوں کے خیال کی بھی تغلیط ہوتی ہے جو اسے ہر سال اکیسویں یا ستائیسویں شب کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔
مختلف آثار میں اس رات کی کچھ نشانیاں بھی بتلائی گئی ہیں، جن کو علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مفصل لکھا ہے۔ مگر وہ آثار بطور امکان ہیں۔ بطور شرط کے نہیں، جیسا کہ بعض روایات میں اس کی ایک علامت بارش کاہونا بھی بتلایا گیا ہے۔ مگر کتنے ہی رمضان ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان میں بارش نہیں ہوتی، حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا برحق ہے۔ پس بہت دفعہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک شخص نے عشرہ آخر کی طاق راتوں میں قیام کیا اور اسے لیلۃ القدر حاصل بھی ہو گئی، مگر اس نے اس رات میں کوئی امر بطور خوارق عادت نہیں دیکھا۔ اس لیے حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فلا نعتقد ان لیلۃ القدر لا ینالہا الا من رای الخوارق بل فضل اللہ واسع یعنی ہم یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ لیلۃ القدر کو وہی پہنچ سکتا ہے جو کوئی امر خارق عادت دیکھے، ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل بہت فراخ ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، حضور ! میں لیلۃ القدر میں کیا دعا پڑھو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ دعا بکثرت پڑھا کرو اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :
ثم الجمہور علی انہا مختصۃ بہذہ الامۃ و لم تکن لمن قبلہم قال الحافظ و جزم بہ ابن حبیب وغیرہ من المالکیۃ کالباجی و ابن عبدالبر و نقلہ عن الجمہور صاحب العدۃ من الشافعیۃ و رجحہ و قال النووی انہ الصحیح المشہور الذی قطع بہ اصحابنا کلہم و جماہیر العلماءقال الحافظ وہو معترض بحدیث ابی ذر عند النسائی حیث قال فیہ قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتکون مع الانبیاءفاذا ماتوا رفعت قال لا بل ہی باقیۃ و عمدتہم قول مالک فی الموطا بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقاصر اعمار امتہ عن اعمار الامم الماضیۃ فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر و ہذا یحتمل التاویل بل یدفع الصریح فی حدیث ابی ذر انتہی۔ قلت حدیث ابی ذر ذکرہ ابن قدامہ 179/3 من غیر ان یعزوہ لاحد بلفظ قلت یا نبی اللہ اتکون مع الانبیاءما کانوا فاذا قبضت الانبیاءو رفعوا رفعت معہم او ہی الی یوم القیامۃ قال بل ہی الی یوم القیامۃ و اما اثر الموطا فقال مالک فیہ انہ سمع من یثق بہ من اہل العلم یقول ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اری اعمار الناس قبلہ او ماشاءاللہ من ذلک فکانہ تقاصر اعمار امتہ ان لا یبلغوا من العمل مثل الذی بلغ غیرہم فی طول العمر فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر خیر من الف شہر.... قلت و اثر الموطا المذکور یدل علی ان اعطاءلیلۃ القدر کان تسلیۃ لہذہ الامۃ القصیرہ الاعمار و یشہد لذلک روایۃ اخری مرسلۃ ذکرہا العینی فی العمدۃ ( ص : 129، ص : 130 ج11 )
جمہور کا قول یہی ہے کہ یہ بات اسی امت کے ساتھ خاص ہے اور پہلی امتوں کے لیے یہ نہیں تھی۔ حافظ نے کہا اسی عقیدہ پر ابن حبیب اور باجی اور ابن عبدالبر علماءمالکیہ نے جزم کیا ہے۔ اور شافعیہ میں سے صاحب العدہ نے بھی اسے جمہور سے نقل کیا ہے۔ حافظ نے کہا کہ یہ حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے جسے نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے میں نے کہا یا رسول اللہ یہ رات پہلے انبیا کے ساتھ بھی ہوا کرتی تھی کہ جب وہ انتقال کرجاتے تو وہ رات اٹھا دی جاتی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ رات باقی ہے اور بہترین قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو انہوں نے موطا میں نقل کیا ہے کہ مجھے پہنچا ہے کہ رسو ل اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جب کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔ ( ملخص )
سورۃ شریفہ انا انزلناہ فی الیلۃ القدر کے شان نزول میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من بنی اسرائیل لبس السلاح فی سبیل اللہ الف شہر فعجب المسلمون من ذلک فانزل اللہ تعالیٰ عزوجل انا انزلناہ الخ قال خیر من الذی لبس السلاح فیہا ذلک الرجل انتہی۔ و ذکر المفسرون انہ کان فی الزمن الاول نبی یقال لہ شمسون علیہ السلام قاتل الکفرۃ فی دین اللہ الف شہر و لم ینزع الثیاب و السلاح فقالت الصحابۃ یا لیت لنا عمراً طویلا حتی نقاتل مثلہ فنزلت ہذہ الایۃ و اخبر صلی اللہ علیہ وسلم ان لیلۃ القدر خیر من الف شہر الذی لبس السلاح فیہا شمسون فی سبیل اللہ الی آخرہ ذکر العینی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہنے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا، اس پر یہ سورۃ شریفہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں ایک شمسون نامی نبی تھے۔ جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کے لیے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے، یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس طویل عمر کے لیے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اس طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی، اور بتلایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی ہے جو عبادت کے لیے ایک ہزار سے بہتر و افضل ہے۔
حدیث نمبر : 2017
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوسہیل نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ مالک بن عامر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔
حدیث نمبر : 2018
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے جو مہینے کے بیج میں پڑتا ہے۔ بیس راتوں کے گزر جانے کے بعد جب اکیسویں تاریخ کی رات آتی تو شام کو آپ گھر واپس آجاتے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی اپنے گھروں میں واپس آجاتے۔ ایک رمضان میں آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تو اس رات میں بھی ( مسجد ہی میں ) مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر آجانے کی تھی، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جو کچھ اللہ پاک نے چاہا، آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ میں اس ( دوسرے ) عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا، لیکن اب مجھ پر یہ ظاہرا ہوا کہ اب اس آخری عشرہ میں مجھے اعتکاف کرنا چاہئے۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے معتکف ہی میں ٹھہرا رہے او رمجھے یہ رات ( شب قدر ) دکھائی گئی لیکن پھر بھلوادی گئی۔ اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ ( کی طاق راتوں ) میں تلاش کرو۔ میں نے ( خواب میں ) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ( چھت سے ) پانی ٹپکنے لگا۔ یہ اکیسویں کی رات کا ذکر ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔
حدیث نمبر : 2019
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( شب قدر کو ) تلاش کرو۔
جس کی صورت یہ کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں جاگو اور عبادت کرو۔
حدیث نمبر : 2020
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہمیں عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد ( عروہ بن زبیر ) نے او رانہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔
حدیث نمبر : 2021
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ ( یعنی ۱۲ یا ۳۲ یا ۵۲ ویں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو )
حدیث نمبر : 2022
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابومجلز اور عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب قدر رمضان کے ( آخری ) عشرہ میں پڑتی ہے۔ جب نور اتیں گزر جائیں یا سات باقی رہ جائیں۔ آپ کی مراد شب قدر سے تھی۔عبدالوہاب نے ایوب اور خالد سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ شب قدر کو چوبیس تاریخ ( کی رات ) میں تلاش کرو۔
رمضان شریف کی چوبیسویں رات جس میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ اور یہاں اس حدیث کو لانے سے یہ مشکل پیدا ہوئی کہ ترجمۃ الباب طاق راتوں کے لیے ہے اور یہ چوبیسویں رات طاق نہیں بلکہ شفع ہے اور اس مشکل کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مراد یہ ہے چوبیسویں تاریخ رمضان کو پورا کرکے آنے والی رات لیلۃ القدر کو تلاش کر اور وہ پچیسویں رات ہوتی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت شریفہ ہے کہ وہ اکثر اپنے تراجم کے تحت ایسی احادیث لے آتے ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح باب سے ادنی سے ادنی مناسبت بھی نکل سکتی ہے۔
مترجم کہتا ہے کہ یہاں بھی حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں فی الوتر من العشر کا اشارہ اسی جانب فرمایا کہ اگرچہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما میں چوبیسویں تاریخ کا ذکر ہے مگر اس سے مراد یہی ہے کہ اسے پورا کرکے پچیسویں شب میں جو وتر ہے شب قدر کو اسی میںتلاش کرو۔ واللہ اعلم بالصواب۔
حدیث نمبر : 2023
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا۔ اب تم اس کی تلاش ( آخری عشرہ کی ) نو یا سات یا پانچ ( کی راتوں ) میں کیا کرو۔
باب : رمضان کے آخری عشر میں زیادہ محنت کرنا
حدیث نمبر : 2024
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے ( یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے ) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
تشریح : کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ اس عشرہ میں عبادت الٰہی کے لیے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سارا عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ( الاحزاب : 21 ) اے ایمان والو ! اللہ کے رسول تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ان کی اقتداءکرنا تمہاری سعادت مندی ہے۔ یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الٰہی کرنا بڑا کار ثواب ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت الٰہی کرنا بہت ہی بڑا کار ثواب ہے۔ لہٰذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت ہو سکے غنیمت ہے
No comments:
Post a Comment