Monday, October 3, 2005

’’تمہارا رب کہتا ہے "مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔

بسم الله، والحمدالله  والصلاۃ والسلام علیٰ رسول الله! اما بعد

الله تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے الله  کو ڈائریکٹ بغیر کسی واسطہ کے پکارنا چاہیے
 ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ )
سورة غافر: 60 
کہ ’’تمہارا رب کہتا ہے "مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ 


آج ہمیں کوئی مصیبت، پریشانی یا کوئی ضرورت پیش آجائے، تو سب سے پہلے ہماری نظر دنیاوی اسباب کی
 طرف جاتی ہے اور ہم دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں چنانچہ جہاں جہاں سے تھوڑی سی امید بھی حاجت پوری ہونے کی ہو، وہاں وہاں گھومتے پھرتے ہیں، دَر دَر کی خاک چھانتے ہیں، لیکن ہمارا ذہن اس بات کی طرف نہیں جاتا کہ جس ذات نے اس تکلیف میں مبتلا کیا ہے، کیا میں نے اس ذات کے سامنے اپنی اس تکلیف کو پیش کیا ہے ؟ یا مجھے اس کی ضرورت ہے کہ میں اپنی اس حاجت کو اس ذات کے سامنے پیش کروں، جس کے پاس زمین و آسمان کے خزانے ہیں، وہ ایسی قادر ذات ہے کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے انسان اور جنات سب کے سب ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور سب اپنی اپنی خواہشات کے مطابق الله تعالیٰ سے مانگیں اور الله تعالیٰ ان سب کو ان کی خواہش کے مطابق عطا کر دے، تو اس سے الله تعالیٰ کے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی، جتنی کہ ایک سوئی سمندر میں ڈبودی جائے اور اسکے ساتھ جو پانی کا قطرہ نکلے۔
 لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور دُعا کرنے، الله تعالیٰ سے مانگنے کی سوچ اور فکر نہیں ہوتی اور اگر دعا کرتے بھی ہیں، تو بس ذرا نام کو ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، نہ دل حاضر ، نہ آداب کا خیال، ہاتھ اٹھائے اور منہ پر پھیرلیا، یہ بھی پتہ نہیں کہ زبان سے کیا کلمات نکلے اور کیا دعا مانگی؟!
 اور دنیا میں کسی دوسرے آدمی کے سامنے انسان اپنی حاجت پیش کرے تو بہت کم ایسے ہوتے ہیں، جو انسان کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر حاجت پوری کر دیتے ہوں اور اگر ایک دفعہ پوری کردیں، تو دوسری یا تیسری بار انکار کر دیتے ہیں اور تنگ آجاتے ہیں۔لیکن قربان جائیے اس رحیم وکریم ذات ِ رب العالمین کے کہ مانگنے سے تنگ نہیں ہوتا ، بلکہ خوش ہوتا ہے اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو  قرآن کریم  کی آیت کی روشنی میں دیکھئے:
 ’’اور تمہارے رب نے فرمادیا ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بلاشبہ جو میری عبادت (دعا) سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب بحالت ذلت جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ 
 اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، یہ الله تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے کہ بندوں کو اپنی ذات عالی سے مانگنے کی اجازت دے دی اور پھر قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمالیا۔
 آپ جانتے ہیں، عبادتیں بہت سی ہیں اور دعا بھی ایک عبادت ہے ، لیکن یہ ایک بہت بڑی عبادت ہے، عبادت ہی نہیں، عبادت کا مغز ہے اور اصل عبادت ہے۔ کیونکہ عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ الله جل شانہ کے حضور میں بندہ اپنی عاجزی اور ذلت پیش کرے اور خشوع وخضوع یعنی ظاہر و باطن کے جھکاؤ کے ساتھ بارگاہ بے نیاز میں پوری نیاز مندی کے ساتھ حاضر ہو اور چوں کہ یہ عاجزی والی حضوری دعا میں سب عبادتوں سے زیادہ پائی جاتی ہے، اس لئے دعا کو عین عبادت اور عبادت کا مغز قرار دیا گیا۔
 دعا کرتے وقت بندہ اپنی عاجزی اور حاجت مندی کا اقرار کرتا ہے اور سراپا نیاز ہو کر بارگاہ سُبحانه وتعالى میں اپنی حاجت پیش کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ صرف الله ہی دینے والا ہے، وہ قادر ہے، کریم ہے، وہ بے نیاز ہے اور مخلوق سراسر عاجز اور محتاج ہے، جب اپنے اس یقین کے ساتھ قادر قیوم کی بارگاہ میں بندہ ہاتھ پھیلا کر سوال کرتا ہے، تو اس کا یہ شغل سراپا عبادت بن جاتا ہے اور یہ دعا الله تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا مندی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو شخص دُعا سے گریز کرتا ہے وہ اپنی حاجت مندی کے اقرار کو خلاف شان سمجھتا ہے، چوں کہ اس کے اس طرز عمل میں تکبر ہے اور اپنی بے نیازی کا دعویٰ ہے، اس لئے الله جل شانہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔
جب صحابہ کرام رضي الله عنهم نے اس کے متعلّق نبی کریمﷺ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ ... سورة البقرة: 186 کہ ’’اور اے نبﷺ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔‘‘ 
اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، پھر وسیلہ ڈالنے کی ضرورت كيا؟
گویا اللہ تعالیٰ ہم سے دور نہیں کہ ہمیں کسی اور کا وسیلہ ڈالنے کی ضرورت پڑے، الله  تعالیٰ ہم سے بہت قریب ہیں : ﴿ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾ ... سورة هود: 61 کہ ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔‘‘ 
نیز فرمایا: ﴿ قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ﴾ ... سورة سبأ: 50 کہ ’’کہو اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اُس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب میرے اوپر نازل کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے۔‘‘ 
نیز فرمایا: ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴾ ... سورة الواقعة:85 کہ’’اُس وقت تمہاری (ورثا کی) بہ نسبت ہم (اللہ تعالیٰ) اُس (مرنے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔‘‘ 
بلکہ الله تعالیٰ نے تو یہ کہہ کر بات کی ختم فرما دی ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴾ ... سورة ق:16 کہ’’ہم اس (انسان) کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں۔‘‘
دُعا میں فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا شرک کی ایک نوع اور الله سُبحانه و تعالى 
 کی توہین ہے 
اور شرک اس طرح کہ الله  تعالیٰ مشرکین مکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿ أَلَا للهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ ... سورة الزمر: 3 کہ ’’خبردار، دین خالص الله کا حق ہے رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ الله تک ہماری رسائی کرا دیں،الله یقیناً اُن کے درمیان اُن تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں الله کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو‘‘
اس آیت کریمہ سے درج ذیل باتوں کا معلوم ہوا:
  1. صرف اللہ وحدہ لا شریک کو پکارنا اور بلا واسطہ پکارنا ہی خالص عبادت ہے، اور اس میں کسی کا وسیلہ ڈالنا  گویا ملاوٹ ہے﴿ أَلَا للهِ الدِّينُ الْخَالِصُ﴾ *ــ 
جو الله سے دعا کرتے ہوئے (فوت شدگان کا) وسیلہ ڈالتے ہیں، تو گویا وہ انہیں االه کے علاوہ اولیاء بناتے ہیں ﴿ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ﴾ اور یہ گویا کہ ان کی عبادت ہی ہے
 مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَىٰ  گویا کہ یہ الله کے فرمان کے مطابق شرک ہوا۔
ایسے لوگ دین میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کا سبب ہیں
 إِنَّ اللهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
ایسے لوگ جھوٹے اور بہت بڑے کافر ہیں

 إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ 
واللہ تعالیٰ اعلم


No comments:

Post a Comment

میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش دیتا ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر ب...