Thursday, April 10, 2025

میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش دیتا ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر بول اٹھا : اے اللہ! میرا گناہ معاف کر دے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ اس بندے نے پھر دوبارہ گناہ کیا اور بول پڑا کہ اے میرے رب! میرا گناہ معاف کر دے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش بھی دیتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ تم جو چاہے کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا۔"    

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 2758]

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ بندہ جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے اور اس کے بعد کہتا ہے کہ اے الهي! مجھے بخش دے، تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے، جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس سے درگزر کرتا ہے یا اس پر سزا دیتا ہے، لہذا میں نے اسے بخش دیا۔ پھر جب بندہ دوبارہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے الهي! مجھے بخش دے، تو اللہ تعالی کہتا ہے کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور اس کا یقین ہے کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ معاف کرتا اور اس سے درگزر کرتا ہے یا اس پر سزا دیتا ہے، لہذا میں نے اسے بخش دیا۔ جب بندہ پھر گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے الهي! مجھے بخش دے، تو اللہ کہتا ہے کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ معاف کرتا اور اس سے درگزر کرتا ہے یا اس پر سزا دیتا ہے، لہذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ اب وہ جو چاہے، کرے، جب تک حالت یہ ہو کہ ہر بار گناہ کرنے کے بعد وہ فورا گناہ کرنا چھوڑ دے، شرمندہ ہو اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ کر لے، لیکن نفس کے بہکاوے میں آکر پھر گناہ کر بیٹھے۔ جب تک یہ حالت بنی رہے، یعنی گناہ کرے اور توبہ کر لے، تو میں اسے معاف کرتا رہوں گا۔ کیوں کہ توبہ پہلے کیے ہوئے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے۔    

 حدیث کے کچھ فوائد

بندوں پر اللہ کی وسیع رحمت کہ انسان جو بھی غلطی کرے اور جو بھی کام کرے، جب اللہ کی جانب لوٹتا ہے اور اس کے سامنے توبہ کرتا ہے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔  

اللہ پر ایمان رکھنے والا شخص اس کی بخشش کی امید رکھتا ہے اور اس کی سزا سے ڈرتا ہے، اس لیے وہ فورا توبہ کرتا ہے اور گناہ میں لت پت نہیں رہتا۔ 

صحیح توبہ کی شرطیں : جو گناہ کر رہا تھا اسے چھوڑ دینا، اس پر شرمندہ ہونا اور دوبارہ اسے نہ کرنے کا پکا ارادہ کر لینا۔ اگر توبہ کا تعلق بندے کے کسی حق، مثلا مال، عزت و آبرو اور جان سے ہو، تو ایک چوتھی شرط بڑھ جاتی ہے۔ وہ شرط ہے، حق والے کو اس کا حق دے دینا یا اس سے معافی تلافی کر لینا۔  

اللہ کا علم رکھنے کی اہمیت، جو بندے کو دینی مسائل سے آگاہی عطا کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں بندہ ہر بار غلطی کرنے کے بعد توبہ کر لیتا ہے۔ وہ نہ تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتا ہے اور نہ گناہ میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔

⚠️ ⛔️مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک

سنن ابن ماجه

کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل

21. بَابُ : الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ

21. باب: ریا اور شہرت کا بیان۔

حدیث نمبر: 4204

(مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد , حدثنا ابو خالد الاحمر , عن كثير بن زيد , عن ربيح بن عبد الرحمن بن ابي سعيد الخدري , عن ابيه , عن ابي سعيد , قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتذاكر المسيح الدجال , فقال:" الا اخبركم بما هو اخوف عليكم عندي من المسيح الدجال" , قال: قلنا: بلى , فقال:" الشرك الخفي , ان يقوم الرجل يصلي فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نکل کر آئے، ہم مسیح دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے“؟ ہم نے عرض کیا: ”کیوں نہیں“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے“ ۱؎۔

وضاحت:

۱؎: یعنی آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور جب کوئی شخص نہ ہو تو جلدی جلدی پڑھ لے، معاذ اللہ، ریا کتنی بری بلا ہے اس کو شرک فرمایا جسے بخشا نہ جائے گا، ایسے ہی ریا کا عمل کبھی قبول نہ ہو گا: «فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولا يشرك بعبادة ربه أحدا» (سورة الكهف: 110) اس آیت میں شرک سے ریا ہی مراد ہے اور عمل صالح وہی ہے جو خالص اللہ کی رضامندی کے لئے ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اللہ کی رضا حاصل کrنے کے لیے ہر طرح کے اعمال شرک سے بچتے ہوئے سنت صحیحہ کے مطابق زندگی گزارے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو قبول فرمائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4129، ومصباح الزجاجة: 1498)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/30) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں کیثر بن زید اور ربیح بن عبد الرحمن میں ضعف ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)

  ● سنن ابن ماجه 4204 سعد بن مالك ألا أخبركم بما هو أخوف عليكم عندي من المسيح الدجال قال قلنا بلى فقال الشرك الخفي أن يقوم الرجل يصلي فيزين صلاته لما يرى من نظر رجل

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4204 کے فوائد و مسائل

(1) 

ریاکاری دجال سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ دجال کھلا دشمن ہے اس کا کفر واضح ہے جبکہ ریاکار کا عمل بظاہر نیکی کا عمل ہوتا ہے۔

(2) 

اسے پوشیدہ شرک اس لیے کہا گیا ہے کہ دجال کھلا دشمن ہے کہ کسی بت درخت قبر چاند سورج وغیرہ کی پوجا کرنے والا سب کو نظر آتا ہے کہ یہ غیر اللہ کی عبادت کر رہا ہے۔

اس کا شرک واضح ہوتا ہے۔

لیکن ریاکاری کرنےوالا بظاہر اللہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے یا رکوع، سجود میں مشغول ہوتا ہے اسے دیکھ کر یہ پتا نہیں چلتا کہ کہ یہ اللہ کی رضا کے لیے نماز نہیں پڑھ رہا بلکہ اپنے نفس کی پوجا کر رہا ہے۔

(3) 

اگر نیکی کرنے والی کی نیت یہ ہو کہ اس کی تعریف کی جائے تو یہ ریا ہے لیکن اس کی نیت یہ نہیں لوگوں کو ویسے ہی اس کی نیکی کا علم ہوجاتا ہے اور وہ تعریف کرتے ہیں اس میں عمل کرنے والے کا قصور نہیں۔

(4) 

جس طرح یہ جائز نہیں کہ نماز پڑھنے والے کو کوئی دیکھ لے تو وہ نماز لمبی کردے اس طرح یہ بھی درست نہیں کہ لمبی سور ت پڑھنا شروع کی ہےاچانک کوئی آگیا تو نماز مختصر کردے بلکہ اپنی پہلی نیت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

(5) 

نماز کے علاوہ دوسرے اعمال کا بھی یہی حکم ہے مثلاً:

صدقہ، جہاد وغیرہ

Wednesday, April 9, 2025

🏡اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ یقینا شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے جہاں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے“۔    

- [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - 

[صحيح مسلم -780

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے گھروں کو نماز سے خالی رکھنے سے منع کیا ہے کہ وہ قبرستان کی طرح ہو جائیں، جہاں نماز نہيں پڑھی جاتی۔

پھر آپ نے بتایا کہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے، جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔    

گھروں میں زیادہ سے زیادہ عبادتیں کرنا اور نفل نماز پڑھنا مستحب ہے۔

قبرستان میں نماز پڑھنا جائز نہيں ہے۔ کیوں کہ اس سے شرک اور قبروں میں دفن لوگوں کے بارے میں غلو کے دروازے کھلتے ہيں۔ لیکن جنازے کی نماز اس سے مستثنی ہے۔

چوں کہ قبروں کے پاس نماز نہ پڑھنے کی بات صحابہ کے یہاں ایک مسلمہ حقیقت تھی، اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ گھروں کو قبرستان کی طرح نہ بناؤ کہ ان کے اندر نماز نہ پڑھی جائے۔

زمرے
مزید ۔ ۔ ۔

Tuesday, April 8, 2025

🕋نماز میں تلاوت قرآن کی فضیلت۔

عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ؟» قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: «فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ».   

[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 802] 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ جب گھر جائے تو اسے گھر میں تین بڑی بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیاں ملیں؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اگر کوئی نماز میں تین آیتیں پڑھ لے، تو وہ اس کے لئے تین بڑی بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہیں"۔    

[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 802]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ نماز میں تین آیتیں تلاوت کرنے کا اجر و ثواب اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ انسان اپنے گھر میں تین بڑی بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیاں پائے۔   

 حدیث کے کچھ فوائد

نماز میں تلاوت قرآن کی فضیلت۔  

نیک اعمال دنیا کی فنا ہونے والے وقتی ساز وسامان سے کہیں زیادہ بہتر اور دیرپا ہیں۔  

یہ فضیلت صرف تین آیتوں کے ساتھ مقید نہیں ہے، بلکہ نمازی اپنی نماز میں جس قدر آیتیں تلاوت کرے گا اسی کے بقدر حاملہ اونٹنیوں کے مقابلہ میں اس کا اجر و ثواب بہتر ہوگا۔

ابو موسى اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :

"اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، سنگترے جیسی ہے، جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہ پڑھتا ہو، کھجور جیسی ہے، جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی، لیکن مٹھاس ہوتی ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے، جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے، لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور وہ منافق جو قرآن نہیں پڑھتا، اس کی مثال اندرائن جیسی ہے، جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔"    


[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 5427]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن پڑھنے اور اس سے فیض یاب ہونے کے سلسلے میں لوگوں کی مختلف قسمیں بیان کی ہيں :

پہلی قسم : ایسا مومن جو قرآن پڑھتا اور اس سے فیض یاب ہوتا ہو۔ اس کی مثال سنگترے جیسی ہے۔ لذیذ بھی، خوش بو دار بھی اور خوش رنگ بھی۔ اس کے منافع بے شمار ہيں۔ جو کچھ پڑھتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے اور اللہ کے بندوں کو فیض یاب کرتا ہے۔

دوسری قسم : ایسا مومن جو قرآن نہ پڑھتا ہو۔ وہ کھجور جیسا ہے۔ میٹھا تو ہے، لیکن خوش بو ندارد۔ جس طرح کھجور کے اندر میٹھاپن ہوتا ہے، اس طرح اس کے اندر ایمان تو ہے، لیکن اس سے خوش بو نہيں نکلتی کہ لوگوں کے ذہن و دماغ کو معطر کر سکے۔ کیوں کہ اس سے قرآن کی قراءت نہيں ہوتی، جسے سن کر لوگوں کو راحت وسکون حاصل ہو۔

تیسری قسم : ایسا منافق جو قرآن پڑھتا ہو۔ اس کی مثال ریحانہ (ایک خوشبو دار پودا) جیسی ہے۔ اس کی خوش بو تو بڑی اچھی ہوتی ہے، لیکن ذائقہ کڑوا۔ کیوں کہ اس نے ایمان کے ذریعے اپنے قلب کی اصلاح نہيں کی اور قرآن پر عمل نہیں کیا اور لوگوں کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ صاحب ایمان ہے۔ ریحانہ کی خوش بو منافق کی قراءت کی مانند ہے اور اس کا کڑوا پن منافق کے کفر کی مانند۔

چوتھی قسم : ایسا منافق جو قرآن نہ پڑھتا ہو۔ اس کی مثال اندرائن جیسی ہے۔ خوش بو بھی نہیں اور ذائقہ بھی کڑوا۔ اندرائن کا خوش بو سے خالی ہونا منافق کا قرآن کی تلاوت سے دور رہنے کی طرح ہے، جب کہ اس کا کڑواپن منافق کے کفر کے کڑوے پن کی طرح ہے، جس کا باطن ایمان سے خالی ہوتا ہے اور ظاہر بالکل نفع بخش نہ ہو، بلکہ ضرر رساں ہو۔    

حدیث نمبر: 2910

-" اقرءوا القرآن، ولا تاكلوا به، ولا تستكثروا به، ولا تجفوا عنه، ولا تغلوا فيه".
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: جب تم میرے خیمے کے پاس پہنچو گے تو کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی ہوئی حدیث بیان کرنا۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے سنا: قرآن مجید پڑھا کرو، نہ اس کو کھانے کا ذریعہ بناؤ، نہ اس کے ذریعے مال کثیر جمع کرو، نہ اس کے معاملے میں سنگدل ہو جاؤ اور نہ اس میں غلو اور تشدد کرو۔

حامل قرآن جو عامل قرآن بھی ہو, اس کی فضیلت کا بیان۔

تعلیم کا ایک طریقہ اپنی بات کو سمجھانے کے لیے مثال پیش کرنا بھی ہے۔

مسلمان کو ہر روز اللہ کی کتاب کا ایک متعینہ حصہ پڑھنا چاہیے۔ 

Monday, April 7, 2025

📖 قران مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں

 مومن مردوں کو تاکید

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
[النور : 31]

مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے۔ [[النور : 31]]
.......................................
حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو ٭٭ 
حکم ہوتا ہے کہ ” جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو، حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو “۔ اگر بالفرض نظر پڑ جائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو۔ 
صحیح مسلم میں ہے سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نگاہ فوراً ہٹا لو ۔  [صحیح مسلم:2159] ‏‏‏‏ 
نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصداً معاف نہیں ۔  [سنن ابوداود:2149،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا راستوں پر بیٹھنے سے بچو ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لیے وہ تو ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو ۔ انہوں نے کہا وہ کیا؟ فرمایا: نیچی نگاہ رکھنا، کسی کو ایذاء نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا، بری باتوں سے روکنا ۔  [صحیح بخاری:6229] ‏‏‏‏ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوتا ہوں، بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو، امانت میں خیانت نہ کرو، وعدہ خلافی نہ کرو، نظر نیچی رکھو، ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ۔  [طبرانی کبیر:8018:ضعیف] ‏‏‏‏
صحیح بخاری میں ہے جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔  [صحیح بخاری:6474] ‏‏‏‏ 
عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے، اس لیے شرمگاہ کو بچانے کے لیے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے ۔  [سنن ابوداود:4017،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ 
محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے، اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کی نظر کسی عورت کے حسن و جمال پر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے ۔  [مسند احمد:264/5:ضعیف] ‏‏‏‏ اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے، اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ 
طبرانی میں ہے کہ یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا ۔  [طبرانی کبیر:7840:ضعیف] ‏‏‏‏ «اَعَاذَنَا اللهُ مِنْ کُلِ ّ عَذَابِهِ»  

فرماتے ہیں، نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے، اللہ اس کے دل میں ایسا نور ایمان پیدا کردیتا ہے کہ اسے مزہ آنے لگتا ہے ۔  [طبرانی کبیر:10363:ضعیف] ‏‏‏‏ لوگوں کا کوئی عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے وہ آنکھوں کی خیانت دل کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لامحالہ پالے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے۔، ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے، پیروں کا زنا چلنا ہے، دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے، پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے ۔ [صحیح بخاری:6243] ‏‏‏‏

اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے، گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو ۔  [ابو نعیم فی الحلية:163/3:ضعیف] ‏‏‏‏

میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش دیتا ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر ب...