آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت کعب بن مالکؓ نے یہ عہد کیا ، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنا نوازا ہو ، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہوئی
یہ واقعہ تین صحابہ کرامؓ حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیعؓ کا ہے جو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پچاس دن تک سوشل بائیکاٹ کی سزا دی تھی۔ قرآن کریم کی سورہ التوبہ کی آیت ۱۱۸ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے اور بخاری شریف کی تفصیلی روایت میں خود حضرت کعب بن مالکؓ نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک ایسے موقع پر پیش آیا جب فصلیں پک چکی تھیں، گرمی کا موسم تھا اور سفر لمبا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ کسی غزوہ پر جاتے ہوئے اپنے ہدف کا اعلان نہیں کرتے تھے تاکہ دشمن کو کسی ذریعے سے خبر نہ ہو جائے۔ مگر تبوک کا سفر چونکہ رومیوں سے جنگ کے لیے تھا جس کے لیے شام کی سرحد تبوک تک جانا تھا۔ ایک ماہ کا سفر تھا اور واپسی پر بھی ایک ماہ لگنا تھا جبکہ وہاں کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں تھا اس لیے کہ قیصر روم خود ایک لاکھ فوج لے کر شام میں پہنچ چکا تھا اور مسلمانوں پر حملے کی تیاری کر رہا تھا۔ مگر جناب نبی اکرمؐ اسے حملے کا موقع دینے کی بجائے خود وہاں جا کر سرحد پر اس سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ مقابلہ بڑی طاقت سے تھا اس لیے نبی اکرمؐ نے عام لام بندی کا اعلان کر دیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ رومیوں کے مقابلے میں جانا ہے تاکہ سب لوگ پوری طرح تیار ہو جائیں، حکم یہ تھا کہ جو بھی لڑنے کے قابل ہے وہ ساتھ چلے۔
کعب بن مالکؓ کا کہنا ہے کہ میں پوری طرح تیار تھا، دو سواریاں بھی خرید رکھی تھیں اور ویسے بھی ٹھیک حال میں تھا لیکن روانگی کے موقع پر مجھ سے سستی ہوگئی کہ آج تیاری کرتا ہوں، کل سامان خریدوں گا اور اسی آج کل میں جناب نبی اکرمؐ روانہ ہوگئے۔ میں پھر بھی مطمئن تھا کہ اچھی سواری رکھتا ہوں، ایک دو روز بعد بھی روانہ ہوا تو قافلے سے جا ملوں گا مگر سستی بدستور چلتی رہی حتیٰ کہ کئی روز گزر گئے اور میں نے یہ اندازہ کر لیا کہ اب نہیں پہنچ سکوں گا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد مدینہ منورہ میں یا معذور لوگ رہ گئے تھے یا ایسے لوگ جنہیں ہم منافقین شمار کرتے تھے۔ مجھے اپنے آپ کو ان کے درمیان دیکھ کر شرمندگی سی ہوتی تھی مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ دورانِ سفر ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کعبؓ نے کیا کیا؟ ایک شخص نے کہا کہ اس کو مزاج کی نزاکت اور نخرے نے روک لیا ہے۔ حضرت جابرؓ بھی موجود تھے انہوں نے ٹوک دیا کہ وہ مخلص صحابی ہے اس کے بارے میں ایسی بات کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جوں جوں جناب رسول اللہؐ کی واپسی کی خبریں مل رہی تھیں مجھے فکر لاحق تھی کہ آپؐ کے سامنے کیا عذر پیش کروں گا؟ اتنے میں تقریباً تین ماہ کے بعد رسول اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لے آئے جبکہ میں نے ایک روز پہلے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ کوئی بہانہ نہیں تراشوں گا اور صاف صاف اصل بات عرض کر دوں گا اس پر جو فیصلہ ہوگا وہ میرے لیے بہتر ہی ہوگا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد گھر تشریف لے جاتے تھے۔ آپؐ جب تشریف لا کر مسجد میں بیٹھے تو لوگوں نے آنا شروع کر دیا جو مختلف قسم کے عذر بہانے کر کے اس غزوہ میں اپنی غیر حاضری پر معذرت کرتے اور حضور علیہ السلام اسے قبول فرما لیتے۔ یہ کم و بیش ۸۰ افراد تھے جنہیں ہمارے ہاں عام طور پر منافقین میں شمار کیا جاتا تھا۔ میں بھی حاضر ہوا، جناب نبی اکرمؐ نے غضب آلود تبسم کے ساتھ میرے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کہ میں ان کے ساتھ سفر پر کیوں نہیں گیا جبکہ میری تیاری بھی حضورؐ کے علم میں تھی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں بھی بظاہر کوئی معقول بہانہ پیش کر کے وقتی طور پر آپؐ کو مطمئن کر سکتا ہوں لیکن اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کل وحی کے ذریعے آپؐ کو اصل صورتحال سے آگاہ کر دیا جائے گا تو میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اس لیے سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ میرا کوئی عذر نہیں تھا اور کوئی رکاوٹ نہیں تھی بس آج کل کرتے کرتے سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا تم نے چونکہ سچ بولا ہے اس لیے تم اپنے بارے میں فیصلے کا انتظار کرو اور عام مسلمانوں کو حکم دیا کہ تاحکم ثانی اس کے ساتھ بول چال اور لین دین بند رکھو۔
کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ اس سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے مدینہ منورہ کی سرزمین میرے لیے تنگ ہوگئی۔ نہ کوئی مجھ سے بات کرتا ہے، نہ سلام کہتا ہے، نہ سلام کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی میری طرف متوجہ ہوتا ہے۔ مجھے مدینہ منورہ کے درودیوار اجنبی لگ رہے تھے اور میں اپنے ہی شہر میں انجانا مسافر ہو کر رہ گیا تھا۔ چند ہی روز میں میرا سانس گھٹنے لگا۔ میری پریشانی کی دو بڑی وجہیں تھیں۔ ایک یہ کہ اگر اس دوران میرا انتقال ہوگیا تو نبی اکرمؐ میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ اور اگر خدانخواستہ اس کیفیت میں خود جناب نبی اکرمؐ چل بسے تو میری باقی ساری زندگی اس سوشل بائیکاٹ کے ماحول میں گزرے گی۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے ساتھ دو اور بدری صحابی حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیعؓ بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں تو پریشانی کچھ کم ہوئی کہ میں اس سزا میں اکیلا نہیں ہوں۔ وہ دونوں کمزور اور بوڑھے تھے اس لیے گھروں میں بیٹھ گئے جبکہ میں نسبتاً جوان اور صحت مند تھا اس لیے مسجد نبوی میں نمازوں میں حاضری اور بازار میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
ایک روز میں بازار جا رہا تھا تو دیکھا کہ شام سے آنے والا ایک قبطی تاجر آواز دے رہا ہے کہ کوئی مجھے کعب بن مالکؓ کا گھر بتائے گا؟ بازار سے گزرنے والے کسی شخص نے اشارے سے میرے بارے میں بتایا کہ وہ جا رہا ہے۔ وہ قبطی آ کر مجھ سے ملا اور ایک خط پیش کیا جو غسان کے بادشاہ کی طرف سے تھا اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے سردار کی طرف سے ذلت اور توہین کا سامنا کر رہے ہو حالانکہ تم محترم شخصیت ہو اور ایسے سلوک کے مستحق نہیں ہو۔ اس لیے میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہیں سیاسی پناہ دیں گے اور عزت و اکرام کا معاملہ کریں گے۔ میں نے خط پڑھ کر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا کہ کیا یہ امتحان ابھی باقی رہ گیا تھا؟ میں اس قبطی کو ساتھ لے کر اپنے محلے کے ایک تنور پر گیا جس میں آگ جل رہی تھی، میں نے وہ خط جلتی ہوئی آگ میں پھینک کر اس قبطی سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے جا کر کہہ دینا کہ یہ اس کے خط کا جواب ہے۔
ہم مسلسل چالیس روز تک اسی کیفیت میں رہے کہ ایک روز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام آیا کہ اپنی بیویوں سے الگ ہو جاؤ اور ان کے قریب نہ جاؤ ۔ ہلال بن امیہؓ کی بیوی نے یہ کہہ کر گھر میں رہنے کی اجازت لے لی کہ یا رسول اللہؐ! اس کا تو روٹی پکانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ آپؐ نے یہ فرما کر اجازت دے دی کہ ضروری کاموں کے لیے تم گھر میں رہ سکتی ہو لیکن تم ایک دوسرے کے قریب نہیں جاؤ گے۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ اس قسم کی اجازت میں بھی حاصل کر لوں مگر میں نے کہا کہ میں جوان آدمی ہوں نباہ نہیں سکوں گا۔ اس لیے میں نے بیوی سے کہا کہ تم میکے چلی جاؤ اور کوئی فیصلہ ہونے تک وہیں رہو۔ اس دوران میں مسجد نبوی میں جاتا رہا، نماز میں شریک ہوتا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا تھا۔ حاضر ہو کر آنحضرتؐ کی خدمت میں سلام عرض کرتا اور منہ دوسری طرف کر کے کن انکھیوں سے دیکھتا کہ کیا آپؐ نے میرے سلام کا جواب دیا ہے؟ مگر ادھر مکمل خاموشی رہتی تھی۔
اسی امتحان و آزمائش میں روز و شب گزر رہے تھے کہ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی اور گہرے دوست ابوقتادہؓ کے پاس اس کے گھر چلا گیا۔ میں نے سلام کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم اس بات کو نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ قلبی محبت رکھتا ہوں؟ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے دوبارہ سہ بارہ قسم دلا کر پوچھا تو اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس پر میں انتہائی مایوسی کے عالم میں روتے ہوئے اس گھر سے نکل آیا۔
ہمارے ساتھ مدینہ منورہ کے لوگوں کے اس سوشل بائیکاٹ پر پچاس راتیں گزر چکی تھیں اور ہماری پریشانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا کہ ایک روز میں فجر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو مجھے گھر کے سامنے کے پہاڑ ’’سلع‘‘ سے آواز سنائی دی کہ اے کعب! خوش ہو جاؤ! میں سمجھ گیا کہ ہماری معافی کا اعلان آگیا ہے۔ ہوا یوں کہ رات کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی کا فیصلہ سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے ذریعے صادر فرما دیا تھا اور جناب نبی اکرمؐ نے صبح نماز فجر کے بعد جب مسجد نبوی میں اس کا اعلان فرمایا تو دو حضرات مجھے اس کی خبر دینے کے لیے دوڑ پڑے اور ان میں مجھے یہ خبر پہلے دینے میں مقابلہ ہوگیا۔ ایک گھوڑے پر سوار ہو کر پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے میری طرف تیزی سے آرہا تھا جبکہ دوسرا پیدل ہی دوڑ پڑا اور درمیانی راستوں سے ہوتے ہوئے میرے گھر کے بالکل قریب جبل سلع تک پہنچ گیا، یہ صاحب حضرت حمزہ اسلمیؓ تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ گھڑ سوار ان سے پہلے کعبؓ کے گھر پہنچ جائے گا تو انہوں نے اسی پہاڑ سے میرے گھر کی طرف رخ کر کے میرے لیے خوشخبری کی آواز لگا دی جو مجھے فورًا پہنچ گئی اور وہ گھڑ سوار پر سبقت لے گئے۔
میں دیوانہ وار گھر سے نکلا، اپنے کپڑے خوشخبری دینے والے کو انعام کے طور پر دیے اور خود پڑوسی سے مانگ کر کپڑے پہنے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا تو وہ صحابہ کرامؓ کے جھرمٹ میں انتہائی خوشی کے عالم میں تشریف فرما تھے۔ حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور جناب رسول اللہؐ نے مجھے اس آزمائش میں سرخرو ہونے پر مبارکباد دی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے سچ بولنے کی وجہ سے یہ اعزاز ملا ہے اس لیے وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ اس خوشی میں میرا سارا مال و جائیداد اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ سارا نہیں اپنے لیے بھی کچھ روک لو، میں نے عرض کیا ٹھیک ہے، خیبر میں ملنے والا باغ میں اپنے لیے روک لیتا ہوں اس کے سوا باقی میرا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔
روایت میں مذکورہ مقام ” حجر “ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر ، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔
ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4419
کتاب: غزوات کے بیان میں باب: حجر بستی سے آنحضرت ﷺ کا گزرنا ہم سے عبد اللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سالم بن عبد اللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام حجر سے گزر ے تو آپ نے فرمایا ، ان لوگوں کی بستیوں سے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، جب گزنا ہوتو روتے ہوئے ہی گزرو ، ایسا نہ ہوکہ تم پر بھی وہی عذاب آجائے جو ان پر آیا تھا ۔ پھر آپ نے سرمبارک پر چا در ڈال لی اور بڑی تیزی کے ساتھ چلنے لگے ، یہاں تک کہ اس وادی سے نکل آئے ۔کہ اس معاملہ میں جھوٹ بول کر میں اپنے کو کسی طرح محفوظ نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ میں نے سچی بات کہنے کا پختہ ارادہ کرلیا ۔ صبح کے وقت آنحضر ت اتشریف لائے ۔ جب آپ کسی سفر سے واپس تشریف لاتے تو یہ آپ کی عادت تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دورکعت نماز پڑھتے ، پھر لوگوں کے ساتھ مجلس میں بیٹھتے ۔ جب آپ اس عمل سے فارغ ہوچکے تو آپ کی خدمت میں لوگ آنے لگے جوغزوہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور قسم کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے ۔ ایسے لوگوںکی تعداد اسی کے قریب تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہر کو قبول فرمالیا ، ان سے عہد لیا ۔ ان کے لیے مغفرت کی د عا فرمائی اوران کے باطن کو اللہ کے سپرد کیا ۔ اس کے بعد میں حاضرہوا ۔ میں نے سلام کیا تو آپ مسکرائے ۔ آپ کی مسکراہٹ میں خفگی تھی ۔ آپ نے فرمایا آؤ ، میں چند قدم چل کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم غزوہ میں کیوں شریک نہیں ہوئے ۔ کیا تم نے کوئی سواری نہیں خریدی تھی ؟ میں نے عرض کیا ، میرے پاس سواری موجود تھی ، خداکی قسم ! اگر میں آپ کے سوا کسی دنیا دار شخص کے سا منے آج بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذر گھڑکر اس کی خفگی سے بچ سکتا تھا ، مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگو کا سلیقہ معلوم ہے ۔ لیکن خداکی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اگر آج میں آپ کے سا منے کوئی جھوٹا عذر بیان کر کے آپ کو راضی کرلوں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا ۔ اس کے بجائے اگر میں آپ سے سچی بات بیان کر دوں تو یقینا آپ کو میری طرف سے خفگی ہوگی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امید ہے ۔ نہیں ، خداکی قسم ! مجھے کوئی عذر نہیں تھا ، خدا کی قسم اس وقت سے پہلے کبھی میں اتنا فارغ البال نہیں تھا اور پھر بھی میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوسکا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھوں نے سچی بات بتادی ، اچھا اب جاؤ ، یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کردے ۔ میں اٹھ گیا اور میرے پیچھے بنوسلمہ کے کچھ لوگ بھی دوڑے ہوئے آئے اور مجھسے کہنے لگے کہ خداکی قسم ، ہمیں تمہارے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سے پہلے تم نے کوئی گنا ہ کیا ہے اور تم نے بڑی کوتا ہی کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ویسا ہی کوئی عذر نہیں بیان کیا جیسا دوسرے نہ شریک ہونے والوں نے بیان کردیاتھا ۔ تمہارے گناہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار ہی کا فی ہوجاتا ۔ خدا کی قسم ان لوگوں نے مجھے اس پر اتنی ملامت کی کہ مجھے خیا ل آیا کہ واپس جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی جھوٹا عذر کرآؤں ، پھر میں نے ان سے پوچھا کیا میرے علاوہ کسی اور نے بھی مجھ جیسا عذر بیان کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں دو حضرات نے اسی طرح معذرت کی جس طرح تم نے کی ہے اور انہیں جواب بھی وہی ملا ہے جو تمہیں ملا ۔ میں نے پوچھا کہ ان کے نام کیا ہیں ؟ انہوں نے بتا کیا کہ مرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہما ۔ ان دو ایسے صحابہ کا نام انہوں نے لے دیا تھا جو صالح تھے اور بدر کی جنگ میں شریک ہوئے تھے ۔ ان کا طرز عمل میرے لیے نمونہ بن گیا ۔ چنانچہ انہوں نے جب ان بزرگوں کا نام لیا تو میں اپنے گھر چلاآیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوںکو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کردی ، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے ، ان میں سے صرف ہم تین تھے ! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے ۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے ۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے ۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے ، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا ، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا ، مسلمانوںکے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھوما کرتا تھالیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا ۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی حاضرہوتا تھا ، آپ کو سلام کرتا ، جب آپ نماز کے بعد مجلس میں بیٹھتے ، میں اس کی جستجومیں لگا رہتا تھاکہ دیکھوں سلام کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہونٹ ہلے یا نہیں ، پھر آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگ جاتا اور آپ کو کنکھیوں سے دیکھتا رہتاجب میں اپنی نماز میں مشغول ہوجاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے لیکن جونہی میں آپ کی طرف دیکھتا آپ رخ مبارک پھیر لےتے ۔ آخر جب اس طرح لوگوںکی بے رخی بڑھتی ہی گئی تو میں ( ایک دن ) ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھ گیا ، وہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور مجھے ان سے بہت گہرا تعلق تھا ، میں نے انہیں سلام کیا ، لیکن خدا کی قسم ! انھوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ میںنے کہا ، ابو قتادہ ! تمہیں اللہ کی قسم ! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ اور اس کے رسول اسے مجھے کتنی محبت ہے ۔ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے دوبارہ ان سے یہی سوا ل کیا خداکی قسم دے کر لیکن اب بھی وہ خاموش تھے ، پھر میں نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے یہی سوال کیا ۔ اس مرتبہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کوزیادہ علم ہے ۔ اس پر میرے آنسو پھوٹ پڑے ۔ میں واپس چلاآیا اور دیوار پر چڑھ کر ( نیچے ، باہر اتر آیا ) انھوں نے بیان کیا کہ ایک دن میں مدینہ کے بازار میں جارہاتھا کہ شام کا ایک کاشتکا رجو غلہ بیچنے مدینہ آیا تھا ، پوچھ رہا تھا کہ کعب بن مالک کہا ںرہتے ہیں ؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تووہ میرے پاس آیا اور ملک غسان کا ایک خط مجھے دیا ، اس خط میں یہ تحریر تھا ۔ ” امابعد ! مجھے معلوم ہواہے کہ تمہار ے صاحب ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے ساتھ زیادتی کرنے لگے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کوئی ذلیل نہیں پیدا کیا ہے کہ تمہارا حق ضائع کیا جائے ، تم ہمارے پاس آجاؤ ، ہم تمہارے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کریں گے ۔ “ جب میں نے یہ خط پڑھا تو میں نے کہا کہ یہ ایک اور امتحان آگیا ۔ میں نے اس خط کو تنور میں جلادیا ۔ ان پچاس دنوںمیںسے جب چالیس دن گزر چکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی میرے پاس آئے اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیاہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ ۔ میں نے پوچھا میں اسے طلاق دے دوںیا پھر مجھے کیا کرنا چاہئےے ؟ انھوں نے بتایا کہ نہیں صرف ان سے جدا ہو ، ان کے قریب نہ جاؤ رے دونوں ساتھیوںکو ( جنہوں نے میری طرح معذرت کی تھی ) بھی یہی حکم آپ نے بھیجا تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اب اپنے میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا کوئی فیصلہ نہ کردے ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہلال بن امیہ ( جن کا مقاطعہ ہواتھا ) کی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیںاور عرض کی یا رسول اللہ ! ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اور کمزور ہیں ، ان کے پاس کوئی خادم بھی نہیں ہے ، کیا اگرمیں ان کی خدمت کردیاکروںتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسندفرمائیں گے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف وہ تم سے صحبت نہ کریں ۔ انھوں نے عرض کی ۔ خداکی قسم ! وہ تو کسی چیز کے لیے حرکت بھی نہیں کرسکتے ۔ جب سے یہ خفگی ان پر ہوئی ہے وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ان کے آنسو تھمنے میں نہیں آتے ۔ میرے گھر کے بعض لوگوں نے کہا کہ جس طرح ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی ہے ، آپ بھی اسی طرح کی اجازت حضور اسے لے لیجئے ۔ میں نے کہا نہیں ، خدا کی قسم ! میں اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں لوں گا ، میں جوان ہوں ، معلوم نہیں جب سے اجازت لےنے جا ؤ ں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں ۔ اس طرح دس دن اور گزر گئے اور جب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کر نے کی مما نعت فرمائی تھی اس کے پچاس دن پورے ہوگئے ۔ پچاسویں رات کی صبح کو جب میں فجر کی نما ز پڑھ چکا اور اپنے گھر کے چھت پر بیٹھا ہوا تھا ، اس طرح جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے ، میرا دم گھٹا جارہا تھا اور زمین اپنی تمام وسعتوں کے باوجود میرے لیے تنگ ہوتی جارہی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی ، جبل سلع پر چڑھ کر کوئی بلند آواز سے کہہ رہا تھا ، اے کعب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو ۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی میں سجدے میں گر پڑا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اب فراخی ہوجائے گی ۔ فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بار گا ہ میں ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان کردیا تھا ۔ لوگ میرے یہاں بشارت دینے کے لیے آنے لگے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی جاکر بشارت دی ۔ ایک صاحب ( زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ) اپنا گھوڑا دوڑا ئے آرہے تھے ، ادھر قبیلہ اسلم کے ایک صحابی نے پہاڑی پر چڑھ کر ( آواز دی ) اور آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی ۔ جن صحا بی نے ( سلع پہاڑی پر سے ) آواز دی تھی ، جب وہ میرے پاس بشارت دینے آئے تو اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس بشارت کی خوشی میں ، میں نے انہیں دے دئےے ۔ خدا کی قسم کہ اس وقت ان دوکپڑوں کے سوا ( دینے کے لائق ) اور میرے پاس کوئی چیز نہیں تھی ۔ پھرمیں نے ( ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے ) دوکپڑے مانگ کر پہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، جوق درجوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے تھے اور مجھے توبہ کی قبولیت پر بشارت دیتے جاتے تھے ، کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی قبولت مبارک ہو ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، آخرمیں مسجد میں داخل ہوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے ۔ چاروں طرف صحابہ کا مجمع تھا ۔ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ دوڑ کر میری طرف بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی ۔ خدا کی قسم ! ( وہاں موجود ) مہاجرین میں سے کوئی بھی ان کے سوا ، میرے آنے پر کھڑا نہیں ہوا ۔ طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا ، ( چہرہ مبارک خوشی اور مسرت دمک اٹھا تھا ) اس مبارک دن کے لیے تمہیں بشارت ہوجو تمہاری عمر کا سب سے مبارک دن ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ فرمایا نہیں ، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات پر خوش ہوتے تو چہرہ مبارک روشن ہوجاتاتھا ، ایسا جیسے چاند کاٹکڑا ہو ۔ آپ کی مسرت ہم توچہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے ۔ پھر جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو عرض کیایا رسول اللہ ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں ، میں اپنا مال اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایالیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لو ، یہ زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے عرض کیا پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لوںگا ۔ پھر میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ ! اللہ رتعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میںیہ عہد کرتاہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤںگا ۔ پس خدا کی قسم ! جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا ، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنانوازا ہو ، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں ۔ جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا ، پھر آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت ( ہمارے بارے میں ) نازل کی تھی ۔ ” یقینا اللہ تعالیٰ نے نبی ، مہاجرین اور انصار کی توبہ قبول کی “ اس کے ارشاد ” وکونوا مع الصادقین “ تک خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے لیے ہدایت کے بعد ، میری نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سچ بولنے سے بڑھ کر اللہ کا مجھ پر اور کوئی انعام نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور اس طرح اپنے کو ہلاک نہیں کیا ۔ جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے تھے ۔ نزول وحی کے زمانہ میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے اتنی شدید وعید فرمائی جتنی شدید کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی ہوگی ۔ فرمایا ہے (( سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم )) ارشاد (( فان اللہ لایرضی عن القوم الفاسقین )) تک کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ۔ چنانچہ ہم تین ، ان لوگوں کے معاملے سے جدارہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھالی تھی اور آپ نے ان کی بات مان بھی لی تھی ، ان سے بیعت بھی لی تھی اور ان کے لیے طلب مغفرت بھی فرمائی تھی ۔ ہمارا معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کا فیصلہ فرمایاتھا ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (( وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا )) سے یہی مراد ہے کہ ہمار ا مقدمہ ملتوی رکھا گیا اور ہم ڈھیل میں ڈال دئےے گئے ۔ یہ نہیں مراد ہے کہ جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوںکے پیچھے رہے جنہوں نے قسمیں کھاکر اپنے عذر بیا ن کئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لیے ۔
تشریح : روایت میں مذکورہ مقام ” حجر “ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر ، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔ روایت میں مذکورہ مقام ” حجر “ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کی بستی کانام ہے۔ یہ وہی قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب زلزلہ شدید دھماکوں اور بجلی کی کڑک کی صورت میں نازل ہوتھا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ تبوک کے لیے
تشریف لے جارہے تھے تو یہ مقام راستے میں پڑا تھا۔ حجر ، شام اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ہے۔
No comments:
Post a Comment