Sunday, March 30, 2025

عید الفطر احادیث کی روشنی میں

 

نماز عیدین
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدنیہ منورہ تشریف لائے تو سال میں دو دن مقرر تھے جن میں لوگ کھیلتے اور خوشیاں مناتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت سے ہم ان میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں، آپ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں وہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ہیں۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: صلاۃ العیدین: ۴۳۱۱م.)
سیدنا نبیشہ الہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایام تشریق (یعنی: ۱۱، ۲۱، اور ۳۱ ) ذو الحجہ کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔‘‘
(مسلم: الصیام، باب: تحریم صوم أیام التشریق: ۱۴۱۱.)
معلوم ہوا کہ عیدا الأضحی اور ایام تشریق کے دنوں میں کھانے پینے میں وسعت کرنا اور مباح کھیل کود میں کوئی حرج نہیں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بچیاں دف بجا کر جنگ بعاث کا قصہ جو انصار نے اشعار میں لکھا تھا گا رہی تھیں۔ (جنگ بعاث اوس اور خزرج کے درمیان حالت کفر میں ہوئی تھی) سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابوبکر! انہیں کچھ نہ کہو بے شک آج عید کا دن ہے۔ بلاشبہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔‘‘
(بخاری، العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام، ۲۵۹، مسلم، صلاۃ العیدین ۲۹۸.)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر پڑھنے والی چھوٹی بچیاں ہوں، آلات موسیقی میں سے صرف دف (یا اس سے کم تر کوئی آلہ) ہو نیز اشعار خلاف شریعت نہ ہوں اور عید کا موقع ہو تو ایسے اشعار پڑھنے یا سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مفاد پرست گویوں نے اس حدیث شریف سے اپنا الو سیدھا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی چنانچہ انہوں نے بچیوں سے ہر عمر کی پیشہ ور گلوکارہ ثابت کر دی، دف سے جملہ آلات موسیقی جائز قرار دیئے، اچھے اشعار سے گانوں کا جواز کشید کیا اور عید کے دن سے ’’روح کی غذائیت‘‘ ڈھونڈ نکالی اور یہ نہ سوچا کہ اللہ خالق و مالک ہے اس نے اپنے بندوں کے لیے جواز کی جو حد چاہی مقرر کر دی اور اس سے تجاوز کو حرام کر دیا۔
مسائل و احکام
غسل کرنا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جمعہ، عرفہ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، صلاۃ العیدین، باب غسل العیدین: ۳/۸۷۲،.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے دن عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
(موطا امام مالک، العیدین، باب العمل فی غسل العیدین والنداء فیھما والاقامۃ۔ (۱/۷۷۱))
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عید کے دن غسل کے مسئلہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر سے استدلال اور جمعہ کے غسل پر قیاس کیا گیا ہے۔
صدقہ فطر ادا کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عید الفطر کی نماز کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
(بخاری: الزکاۃ، باب: فرض صدقۃ الفطر: ۳۰۵۱ ومسلم: الزکاۃ، باب: الأمر بإخراج زکاۃ الفطر قبل الصلاۃ: ۶۸۹.)
عید گاہ میں پہنچ کر صدقۃ الفطر ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ اسے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔
عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ آبادی سے باہر عید گاہ میں نماز ادا کرتے۔
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحٰی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔‘‘
(بخاری، العیدین، الخروج الی المصلی بغیر منبر،۶۵۹، مسلم، الصلاۃ العیدین،۹۸۸.)
آپ کی عید گاہ مسجد نبوی سے ہزار ذراع کے فاصلہ پر تھی۔ یہ عید گاہ البقیع کی طرف تھی۔
بغیر اذان اور تکبیر کے نماز پڑھنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز پڑھی آپ نے بغیر اذان اور تکبیر کے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی۔" (مسلم: ۵۸۸.)
سیدنا جابر بن عبد اللہ الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
"نماز عید کے لیے اذان ہے نہ تکبیر، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز۔"
(بخاری: ۰۶۹، مسلم: صلاۃ العیدین: ۶۸۸.)
عید گاہ میں نفل:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں سوائے عید کی دو رکعتوں کے نہ پہلے نفل پڑھے نہ بعد میں۔
(بخاری: العیدین، باب: الخطبۃ بعد العید: ۴۶۹، ومسلم: صلاۃ العیدین، باب: ترک الصلاۃ قبل العید وبعدھا فی المصلی: ۴۸۸.)
البتہ عید کی نماز سے فارغ ہو کر گھر جا کر دو رکعتیں پڑھی جا سکتیں ہیں۔
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے البتہ جب عید پڑھ کر اپنے گھر کی طر ف لوٹتے تو دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الصلاۃ قبل الصلاۃ العید و بعدھا،۳۹۲۱.)
نماز عید سے پہلے کھانا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر میں کچھ کھا کر نماز کو نکلتے۔ اور عید الاضحی میں نماز پڑھ کر کھاتے۔
(ترمذی: العیدین، باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج ۲۴۵۔ ابن ماجہ، الصیام، باب فی الاکل یوم الفطر قبل ان یخرج ۶۵۷۱۔ ابن حبان، ابن خزیمۃ ، حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز طاق کھجوریں کھا کر عید گاہ جایا کرتے تھے۔
(بخاری، العیدین، باب الاکل یوم الفطر قبل الخروج: ۳۵۹.)
دیہات میں نماز عید:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب شہر جا کر عید کی نماز باجماعت ادا نہ کر سکتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبد اللہ بن ابی عتبہ کو شہر والوں کی نماز کی طرح نماز پڑھانے کا حکم دیتے۔
(بخاری، العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین (تعلیقاً) السنن الکبری للبیہقی، 
۳/۵۰۳.
عید کی نماز اگلے دن ادا کرنا
ایک قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ انہوں نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ روزہ افطار کر دیں اور کل جب صبح ہو تو وہ عید گاہ کی طرف نکل آئیں۔
(ابو داود: الصلاۃ، باب: إذا لم یخرج الإمام للعید من یومہ یخرج من العید: ۷۵۱۱۔ابن حزم اور بیہقی نے اسے صحیح کہا۔)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی عذر کی بنا پر نماز عید کا وقت فوت ہو جائے تو وہ اگلے دن عید کی نماز کے لیے نکلیں۔
عید کے دن جنگی کھیلوں کا مظاہرہ:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
’’عید کے دن حبشی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو میں نے کہا ہاں! مجھے آپ نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میں ان حبشیوں کا تماشا دیکھ رہی تھی جو عید کے دن مسجد میں جنگی کھیلوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: أصحاب الحراب فی المسجد: ۴۵۴۔ مسلم: العیدین، باب: الرخصۃ فی اللعب: ۲۹۸.)
نماز عید کا وقت:
سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے روز نماز کے لیے گئے۔ امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے، راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب: وقت الخروج الی العید: ۵۳۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل کرنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(بخاری: العیدین، باب: من خالف الطریق إذا رجع یوم العید: ۶۸۹.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن کسی راستے سے نکلتے تو واپسی پر کسی دوسرے راستے سے لوٹتے۔‘‘
(ابو داؤد، الخروج الی العید فی طریق، ویرجع فی طریق ۶۵۱۱، ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الخروج یوم العید من طریق،۱۰۳۱.)
عید گاہ میں عورتیں:
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہمیں حکم دیا گیا کہ
ہم (سب عورتوں کو حتیٰ کہ) حیض والیوں اور پردہ والیوں کو (بھی) دونوں عیدوں میں (گھروں سے نکالیں) تاکہ وہ (سب) مسلمانوں کی جماعت (نماز) اور ان کی دعا میں حاضر ہوں۔ اور فرمایا
حیض والیاں جائے نماز سے الگ رہیں۔ (یعنی وہ نماز نہ پڑھیں) لیکن مسلمانوں کی دعاؤں اور تکبیروں میں شامل رہیں۔ تاکہ اللہ کی رحمت اور بخشش سے حصہ پائیں۔
ایک عورت نے عرض کیا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو (تو پھر وہ کیسے عید گاہ میں جائے؟) فرمایا:
’’اس کو اس کی ساتھ والی عورت چادر اڑھا دے۔ (یعنی کسی دوسری عورت سے چادر عاریتاً لے کر چلے)۔ ‘‘
(بخاری: صلاۃ، باب: وجوب الصلاۃ فی الثیاب: ۱۵۳۔ مسلم: صلاۃ العیدین، باب: ذکر إباحۃ خروج النساء فی العیدین إلی المصلی: ۰۹۸.)
سیّدنا عبد اللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ہر بالغ لڑکی کا نماز عیدین کے لیے نکلنا واجب ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۸۰۴۲.)
تکبیرات عید :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تکبیرات کے پڑھنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو صحیح ترین روایت مروی ہے، وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔‘‘
۱۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کے دن (۹ ذوالحجہ) کی فجر سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات کہتے۔
(السنن الکبری للبیہقی (۳/۴۱۳ ح :۵۷۶۲) امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
۲۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن گھر سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے۔
(السنن الکبری للبیہقی (۳/۹۷۲) ۹۲۱۶ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما موقوفاً محفوظ ہے.)
۳۔ امام زہری کہتے ہیں کہ لوگ عید کے دن اپنے گھروں سے عید گاہ تک تکبیرات کہتے، پھر امام کے ساتھ تکبیرات کہتے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ۱/۸۸۴.۸۲۶۵)
۴۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ۹ ذوالحجہ کو نماز فجر سے لے کر ۱۳ ذوالحجہ نماز عصر تک ان الفاظ میں تکبیرات کہتے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ وَأَجَلُّ اللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ.‘‘
’’اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے، بہت بڑا، اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ صاحب جلال ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ ہی کے لیے ساری تعریف ہے۔‘‘
(ابن أبی شیبۃ: ۱/۹۸۴،۔ اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
۵۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ یوں تکبیرات کہتے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا.‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، ۳/۶۱۳،۲۸۲۶.)
’’حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس بارے میں صحیح ترین قول سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کا ہے۔‘‘
۶۔ مشہور تابعی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ عرفات کے دن نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر 
’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ.‘‘ 
پڑھتے تھے۔
(مصنف ابی شیبہ:۲/۷۶۱، حدیث۹۴۶۵.)
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی ان الفاظ سے تکبیر کہا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۸۶۱ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا۔ (ارواء الغلیل ۳/۵۳۱.)
مسائل و احکامI
غسل کرنا:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جمعہ، عرفہ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔‘‘
(السنن الکبری للبیہقی، صلاۃ العیدین، باب غسل العیدین: ۳/۸۷۲،.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے دن عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
(موطا امام مالک، العیدین، باب العمل فی غسل العیدین والنداء فیھما والاقامۃ۔ (۱/۷۷۱))
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عید کے دن غسل کے مسئلہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر سے استدلال اور جمعہ کے غسل پر قیاس کیا گیا ہے۔
صدقہ فطر ادا کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عید الفطر کی نماز کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
(بخاری: الزکاۃ، باب: فرض صدقۃ الفطر: ۳۰۵۱ ومسلم: الزکاۃ، باب: الأمر بإخراج زکاۃ الفطر قبل الصلاۃ: ۶۸۹.)
عید گاہ میں پہنچ کر صدقۃ الفطر ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ اسے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔
عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ آبادی سے باہر عید گاہ میں نماز ادا کرتے۔
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحٰی کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔‘‘
(بخاری، العیدین، الخروج الی المصلی بغیر منبر،۶۵۹، مسلم، الصلاۃ العیدین،۹۸۸.)
آپ کی عید گاہ مسجد نبوی سے ہزار ذراع کے فاصلہ پر تھی۔ یہ عید گاہ البقیع کی طرف تھی۔
بغیر اذان اور تکبیر کے نماز پڑھنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز پڑھی آپ نے بغیر اذان اور تکبیر کے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی۔" (مسلم: ۵۸۸.)
سیدنا جابر بن عبد اللہ الأنصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
"نماز عید کے لیے اذان ہے نہ تکبیر، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز۔"
(بخاری: ۰۶۹، مسلم: صلاۃ العیدین: ۶۸۸.)
عید گاہ میں نفل:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں سوائے عید کی دو رکعتوں کے نہ پہلے نفل پڑھے نہ بعد میں۔
(بخاری: العیدین، باب: الخطبۃ بعد العید: ۴۶۹، ومسلم: صلاۃ العیدین، باب: ترک الصلاۃ قبل العید وبعدھا فی المصلی: ۴۸۸.)
البتہ عید کی نماز سے فارغ ہو کر گھر جا کر دو رکعتیں پڑھی جا سکتیں ہیں۔
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید سے پہلے کوئی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے البتہ جب عید پڑھ کر اپنے گھر کی طر ف لوٹتے تو دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الصلاۃ قبل الصلاۃ العید و بعدھا،۳۹۲۱.)
نماز عید سے پہلے کھانا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر میں کچھ کھا کر نماز کو نکلتے۔ اور عید الاضحی میں نماز پڑھ کر کھاتے۔
(ترمذی: العیدین، باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج ۲۴۵۔ ابن ماجہ، الصیام، باب فی الاکل یوم الفطر قبل ان یخرج ۶۵۷۱۔ ابن حبان، ابن خزیمۃ ، حاکم اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز طاق کھجوریں کھا کر عید گاہ جایا کرتے تھے۔
(بخاری، العیدین، باب الاکل یوم الفطر قبل الخروج: ۳۵۹.)
دیہات میں نماز عید:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب شہر جا کر عید کی نماز باجماعت ادا نہ کر سکتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبد اللہ بن ابی عتبہ کو شہر والوں کی نماز کی طرح نماز پڑھانے کا حکم دیتے۔
(بخاری، العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین (تعلیقاً) السنن الکبری للبیہقی، ۳/۵۰۳.)
عید کی نماز اگلے دن ادا ک
ایک قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ انہوں نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ روزہ افطار کر دیں اور کل جب صبح ہو تو وہ عید گاہ کی طرف نکل آئیں۔
(ابو داود: الصلاۃ، باب: إذا لم یخرج الإمام للعید من یومہ یخرج من العید: ۷۵۱۱۔ابن حزم اور بیہقی نے اسے صحیح کہا۔)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی عذر کی بنا پر نماز عید کا وقت فوت ہو جائے تو وہ اگلے دن عید کی نماز کے لیے نکلیں۔
عید کے دن جنگی کھیلوں کا مظاہرہ:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
’’عید کے دن حبشی ڈھالوں اور نیزوں سے کھیلتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو میں نے کہا ہاں! مجھے آپ نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میں ان حبشیوں کا تماشا دیکھ رہی تھی جو عید کے دن مسجد میں جنگی کھیلوں کا مظاہرہ کر رہے تھے۔‘‘
(بخاری: الصلاۃ، باب: أصحاب الحراب فی المسجد: ۴۵۴۔ مسلم: العیدین، باب: الرخصۃ فی اللعب: ۲۹۸.)
نماز عید کا وقت:
سیدنا عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے روز نماز کے لیے گئے۔ امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے، راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔
(ابو داؤد، الصلاۃ، باب: وقت الخروج الی العید: ۵۳۱۱، اسے امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل کرنا:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن عیدگاہ آنے جانے کا راستہ تبدیل فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(بخاری: العیدین، باب: من خالف الطریق إذا رجع یوم العید: ۶۸۹.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن کسی راستے سے نکلتے تو واپسی پر کسی دوسرے راستے سے لوٹتے۔‘‘
(ابو داؤد، الخروج الی العید فی طریق، ویرجع فی طریق ۶۵۱۱، ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، ما جاء فی الخروج یوم العید من طریق،۱۰۳۱.)


عید الفطر احادیث کی روشنی میں

٭عن أم عطیة رضی اللہ عنہا قالت : أمرنا ان نخرج العواتق والحیض فی العیدین یشھدن الخیر ودعوة المسلمین ویعتزل الحیض المصلی.

{صحیح البخاری : ٣٢٤، مسلم : ٨٩٠ بلوغ المرام ٤٨٩}

ترجمة : حضرت أم عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم دو شیزاوں {جوان کتواری لڑکیاں } اور حائضہ عورتوں کو عیدین کے لئے نکالیں ، وہ مسلمانوں کی دعاوں اور امور خیر{نماز وغیرہ}میں شریک ہوں ، البتہ حائضہ عورت نماز گاہ سے الگ رہے .

٭عن ابن عباس ان النبی صلى الله عليه وسلم صلی یوم العیدین لم یصل قبلہا ولا بعدھا.

صحیح البخاری : ٩٦٤ ، مسلم : ٨٨٤ {بلوغ المرام ٤٩١}

ترجمة : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الہہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے عید کی نماز دو رکعت پڑھی نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اسکے بعد.

٭عن عبد اللہ بن عمرو : قال النبی صلى الله عليه وسلم : التکبیر یوم الفطر سبع فی الأولی وخمس فی الآخرة بعدھما کلتیہما.

سنن ابو داود : ١١٥١ {بلوغ المرام ٤٩٥}

ترجمة: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضیی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : عید الفطر کے دن پہلی رکعت میں سات بار تکبیر کہنا ہے اور دوسری رکعت میں پانچ بار اور قرائت دونوں رکعت میں تکبیر کے بعد ہے .

فوائد :

١۔ عید کی نماز پڑھنا واجب ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلمنے حکم دیا ہے .

٢۔ عید گاہ میں عورتوں کا جانا اور مسلمانوں کی دعا اور نماز میں شریک ہونا شرعی حکم ہے .

٣۔ عید کی نماز دو رکعت ہے جو عید گاہ یا باہر میدان میں پڑھی جائیگی .

٤۔ عید کی نماز سے قبل کوئی سنت نماز نہیں ہے اور نہ ہی بعد میں البتہ اگر عید کی نماز کسی ضرورت سے مسجد میں پڑھی گئی تو تحیة المسجد پڑھی جائیگی .

٥۔ عید کی نماز میں پہلی رکعت میں قرائت سے پہلے سات تکبیر یں اور دوسری رکعت میں قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں ہیں .

٦۔ عید کی نماز کیلئے نہ ہی اذان کہی جائیگی اور نہ ہی اقامت کیونکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم عید کی نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی ہے { ابو داود : ١١٤٧}.

————————————–

٭ عن أنس قال : قدم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم المدینة ولہم یومان یلعبون فیہا ۔فقال : قد أبدلکم اللہبہما خیرا منہما : یوم الأضحی و یوم الفطر . سنن ابوداود : ١١٣٤، النسائی ١٧٩٣ {بلوغ المرام ٤٩٩}

ترجمة : حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کے دو دن مقرر تھے جن میں کھیل کود کرتے تھے . آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ان دونوں دنوں کو اللہ تعالی تمھارے دو بہتر دنوں سے بدل دیا ہے . عید الأضحی اور عید الفطر سے .

٭عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال : کان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یخرج یوم الفطر والأضحی الی المصلی وأول شیء یبدأبہ الصلاة ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس والناس علی صفوفہم فیعظہم ویأمرھم .

صحیح البخاری : ٩٥٦ ، مسلم : ٨٨٩{بلوغ المرام٤٩٤}

ترجمة: حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم عید الفطر اور عید الأضحی کوجب نماز کیلئے نکلتے تو سب سے پہلے نماز پڑھتے پھر لوگوں کی طرف منھ کرکے کھڑے ہوتے ، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے آپ انھیں وعظ فرماتے اور حکم دیتے .

٭ عن علی بن أبی طالب قال : من السنة أن تخرج الی العید ماشیا وأن تأکل شیئا قبل أن تخرج.

سنن الترمذی :٥٣٠ ، سنن ابن ماجہ : ١٢٩٤ { بلوغ المرام ٥٠٠ }

ترجمة: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ عید کے لئے پیدل چلکر جائے اور نکلنے سے قبل کچھ کھا کر نکلے.

فوائد

١۔ مسلمانوں کی عیدیں شریعت کی طرف سے متعین ہیں لہذا اپنی طرف سے کوئی عید ایجاد کرنا بدعت ہو گا.

٢۔ عید کے دن نماز پہلے پڑھی جائے گی پھر خطبہ دیا جائے گا .

٣۔ عید کے خطبے میں امام لوگوں کو نصیحت کرے اور ضروری أحکام بیان کرے .

٤۔ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ عید کیلئے پیدل چلکر جائے .

٥۔ عید الفطر کی نماز کے لئے نماز نکلنے سے پہلے کچھ کھا کر جانا سنت ہے البتہ عید الأضحی کے دن بغیر کچھ کھائے جانا چاہئے 

٦۔ عید کے دن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جمعہ کی طرح اس دن غسل کرے اور اچھے سے اچھا کپڑا پہنے اور خو شبو استعمال کرے .

٧۔ عید کے دن کا ایک ادب یہ بھی ہے آنے اور جانے میں راستہ تبدیل کرے { بخاری : ٩٨٦}.

٨۔ عید کے دن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ عید گاہ جاتے وقت راستے میں تکبیر کہتا جائے .

تکبیرات :

الله أكبر الله أكبر لاإله إلا الله …. والله أكبر الله أكبر ولله الحمــد

No comments:

Post a Comment

میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش دیتا ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر ب...