Saturday, March 29, 2025

🌙 عید کا چاند دیکھیں تو عید کی نماز تک تکبیرات پڑہیں

جب اہل ایمان ھلال شوال دیکھیں تو وہ سب تکبیرات پڑھیں ، مساجد میں بھی اور گھروں بازاروں میں بھی ، سفر وحضر ہر حال میں یہ تکبیریں پڑھی جائیں ، اور بآواز بلند پڑھیں 

 " اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا 
إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ "[اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں۔ ] یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، چاہے آپ ابتدا میں دو یا تین بار تکبیر کے الفاظ   کہیں۔
اور تکبیریں نماز عید کیلئے نکلتے وقت تک اور اس کے بعد بھی جاری رکھیں ،حتی کہ امام نماز پڑھانے کیلئے آجائے اس وقت موقوف کردیں ‘‘
’ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت اللہ تعالیٰ کا بندوں پر انعام ہے، اور جب اللہ کی توفیق سے انہوں نے روزے بحسن و خوبی پورے کرلئے تو انہیں اب حکم دیا گیا کہ بطور شکر اللہ کو یاد کریں اور تکبیر کہیں اسی آیت کے پیش نظر بہت سے علماء نے عید الفطر میں تکبیر کہنے کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام داود ظاہری (رحمہ اللہ) نے اسے واجب کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) عید الفطر اور عید الاضحی میں بآواز بلند تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ جاتے تھے اور امام کے آنے تک کہتے رہتے تھے‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’(وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
اس آیت سے علمائے کرام نے روزوں کی تکمیل پر اس کا شکر ادا کرنے کے لیے عید الفطر کا اہتمام اور اس کے لیے جاتے اور واپس آتے ہوئے تکبیرات کا اہتمام اخذ کیا ہے۔ جس کی عملی تفسیر احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملتی ہے۔
 ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: عيد الفطر كے دن وہ سورج طلوع ہونے پر عيدگاہ جاتے اور عيدگاہ پہنچنے تك تكبيريں كہتے اور عيدگاہ ميں بھى امام كے بيٹھنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے، جب امام بيٹھ جاتا تو تكبيريں ترك كر ديتے.
عید سعید کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کیا ہے کہ جب عیدالفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے ” لیلة الجائزة“ یعنی انعام کی رات کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں“اے امت محمد! (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف فرمانے والا ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
اے میرے بندو! مانگو کیا مانگتے ہو؟ میری عزت و جلال کی قسم! آج کے روز اس (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرما¶ں گا (یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو) میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطا¶ں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں) کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جا¶ گے، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“ (الترغیب والترہیب)
عید الفطر کے دن جب مسلمان عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
”یہ ہیں میرے وہ بندے جو عبادت میں لگے ہوئے ہیں اور بتاو¿ کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا کیا صلہ ملنا چاہیے؟ جواب میں فرشتے فرماتے ہیں کہ جو مزدور اپنا کام پورا کر لے اس کا صلہ یہ ہے کہ اسے اس کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔ اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے ہیں، میں نے رمضان کے مہینے میں ان کے ذمے ایک کام لگایا تھا کہ روزہ رکھیں اور میری خاطر کھانا پینا چھوڑ دیں اور اپنی خواہشات کو ترک کر دیں، آج انہوں نے اپنا فریضہ مکمل کر دیا۔ اب یہ اس میدان کے اندر جمع ہیں اور مجھ سے دعا مانگ رہے ہیں۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں، اپنے علو مکان کی قسم کھاتا ہوں کہ آج میںسب کی دعاو?ں کو قبول کروں گا اور میں ان گناہوں کی مغفرت کروں گا اور ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دوں گا۔“
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ:
”جب روزہ دار عید گاہ سے واپس جاتے ہیں تو اس حالت میں جاتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔“
عید کیسے منائیں :
عید الفطر کا دن ہماری زندگی کا سب سے اہم دن ہے اور یہ سال میں ایک بار آتا ہے،اس لئے ہماری کوشش ہو کہ اس مبارک دن کو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہوئے لہو و لعب سے پاک ہوکر دن گزارے، اہل و عیال کے ضروریات کی چیزوں پر فراخ دلی سے خرچ کریں، نہا دھو کر جو کپڑا سب سے اچھا ہو اسے زیب تن کریں، خوشبو لگائیں، اچھا سے اچھا پہنیں، کھائیں، عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے وسیع قلب اور خوش دلی سے ملیں، عید کے دن کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت متبرک والا دن قرار دیا ہے،۔

No comments:

Post a Comment

میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش دیتا ہے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر ب...