Tuesday, April 8, 2025

🕋نماز میں تلاوت قرآن کی فضیلت۔

عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ؟» قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ: «فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ».   

[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 802] 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ جب گھر جائے تو اسے گھر میں تین بڑی بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیاں ملیں؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اگر کوئی نماز میں تین آیتیں پڑھ لے، تو وہ اس کے لئے تین بڑی بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہیں"۔    

[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 802]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ نماز میں تین آیتیں تلاوت کرنے کا اجر و ثواب اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ انسان اپنے گھر میں تین بڑی بڑی موٹی تازی حاملہ اونٹنیاں پائے۔   

 حدیث کے کچھ فوائد

نماز میں تلاوت قرآن کی فضیلت۔  

نیک اعمال دنیا کی فنا ہونے والے وقتی ساز وسامان سے کہیں زیادہ بہتر اور دیرپا ہیں۔  

یہ فضیلت صرف تین آیتوں کے ساتھ مقید نہیں ہے، بلکہ نمازی اپنی نماز میں جس قدر آیتیں تلاوت کرے گا اسی کے بقدر حاملہ اونٹنیوں کے مقابلہ میں اس کا اجر و ثواب بہتر ہوگا۔

ابو موسى اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :

"اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، سنگترے جیسی ہے، جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہ پڑھتا ہو، کھجور جیسی ہے، جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی، لیکن مٹھاس ہوتی ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے، جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے، لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور وہ منافق جو قرآن نہیں پڑھتا، اس کی مثال اندرائن جیسی ہے، جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔"    


[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 5427]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن پڑھنے اور اس سے فیض یاب ہونے کے سلسلے میں لوگوں کی مختلف قسمیں بیان کی ہيں :

پہلی قسم : ایسا مومن جو قرآن پڑھتا اور اس سے فیض یاب ہوتا ہو۔ اس کی مثال سنگترے جیسی ہے۔ لذیذ بھی، خوش بو دار بھی اور خوش رنگ بھی۔ اس کے منافع بے شمار ہيں۔ جو کچھ پڑھتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے اور اللہ کے بندوں کو فیض یاب کرتا ہے۔

دوسری قسم : ایسا مومن جو قرآن نہ پڑھتا ہو۔ وہ کھجور جیسا ہے۔ میٹھا تو ہے، لیکن خوش بو ندارد۔ جس طرح کھجور کے اندر میٹھاپن ہوتا ہے، اس طرح اس کے اندر ایمان تو ہے، لیکن اس سے خوش بو نہيں نکلتی کہ لوگوں کے ذہن و دماغ کو معطر کر سکے۔ کیوں کہ اس سے قرآن کی قراءت نہيں ہوتی، جسے سن کر لوگوں کو راحت وسکون حاصل ہو۔

تیسری قسم : ایسا منافق جو قرآن پڑھتا ہو۔ اس کی مثال ریحانہ (ایک خوشبو دار پودا) جیسی ہے۔ اس کی خوش بو تو بڑی اچھی ہوتی ہے، لیکن ذائقہ کڑوا۔ کیوں کہ اس نے ایمان کے ذریعے اپنے قلب کی اصلاح نہيں کی اور قرآن پر عمل نہیں کیا اور لوگوں کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ صاحب ایمان ہے۔ ریحانہ کی خوش بو منافق کی قراءت کی مانند ہے اور اس کا کڑوا پن منافق کے کفر کی مانند۔

چوتھی قسم : ایسا منافق جو قرآن نہ پڑھتا ہو۔ اس کی مثال اندرائن جیسی ہے۔ خوش بو بھی نہیں اور ذائقہ بھی کڑوا۔ اندرائن کا خوش بو سے خالی ہونا منافق کا قرآن کی تلاوت سے دور رہنے کی طرح ہے، جب کہ اس کا کڑواپن منافق کے کفر کے کڑوے پن کی طرح ہے، جس کا باطن ایمان سے خالی ہوتا ہے اور ظاہر بالکل نفع بخش نہ ہو، بلکہ ضرر رساں ہو۔    

حدیث نمبر: 2910

-" اقرءوا القرآن، ولا تاكلوا به، ولا تستكثروا به، ولا تجفوا عنه، ولا تغلوا فيه".
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: جب تم میرے خیمے کے پاس پہنچو گے تو کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنی ہوئی حدیث بیان کرنا۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے سنا: قرآن مجید پڑھا کرو، نہ اس کو کھانے کا ذریعہ بناؤ، نہ اس کے ذریعے مال کثیر جمع کرو، نہ اس کے معاملے میں سنگدل ہو جاؤ اور نہ اس میں غلو اور تشدد کرو۔

حامل قرآن جو عامل قرآن بھی ہو, اس کی فضیلت کا بیان۔

تعلیم کا ایک طریقہ اپنی بات کو سمجھانے کے لیے مثال پیش کرنا بھی ہے۔

مسلمان کو ہر روز اللہ کی کتاب کا ایک متعینہ حصہ پڑھنا چاہیے۔ 

No comments:

Post a Comment